ٹرمپ کا یوکرین پر روسی حملے کا الزام، تنازع ختم کرنے کے لیے معاہدے کا مشورہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو روس کے حملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ کیف کو یہ جنگ “شروع ہی نہیں کرنی چاہیے تھی” اور تنازع سے بچنے کے لیے معاہدہ کر لینا چاہیے تھا۔
فلوریڈا میں مار-اے-لاگو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران، ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ وہ اسی ماہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کر سکتے ہیں۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب امریکی اور روسی حکام نے سعودی عرب میں مذاکرات کے بعد جنگ کے خاتمے کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کیا۔
“میرے پاس اس جنگ کو ختم کرنے کی طاقت ہے، اور میرا خیال ہے کہ سب کچھ بہت اچھا چل رہا ہے،” ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا۔ یوکرین کو مذاکرات میں شامل نہ کرنے پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے، انہوں نے کہا: “آپ تین سال سے وہاں موجود ہیں، آپ کو اسے ختم کرنا چاہیے تھا… آپ کو یہ شروع ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آپ کوئی معاہدہ کر سکتے تھے۔ میں یوکرین کے لیے معاہدہ کر سکتا تھا۔”
ریاض میں ہونے والے اجلاس میں، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا جو جنگ بندی کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرے گی۔
ٹرمپ نے مذاکرات کے حوالے سے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ماسکو جنگ کے خاتمے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا: “وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ اس وحشیانہ تباہی کو روکنا چاہتے ہیں۔”
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ان کی انتظامیہ یوکرین میں انتخابات کے ذریعے امن معاہدے کی روسی تجویز کی حمایت کرے گی، تو انہوں نے بغیر کسی ثبوت کے کہا کہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کی مقبولیت صرف چار فیصد رہ گئی ہے۔
ٹرمپ نے مزید کہا: “جب آپ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہتے ہیں، تو کیا یوکرین کے عوام کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ‘ہمیں الیکشن کرائے ہوئے کافی وقت ہو چکا ہے’؟”
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کے بعد اس خیال کو مسترد کر دیا کہ یوکرین کی غیر موجودگی میں امن مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا: “یوکرین کے بغیر، جنگ ختم کرنے کا کوئی فیصلہ ممکن نہیں۔”
دسمبر میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، یوکرینی عوام کا 52 فیصد اب بھی زیلنسکی پر اعتماد رکھتا ہے، اگرچہ یہ فروری کے مقابلے میں 12 فیصد کم ہے۔
ٹرمپ کے بیانات نے یورپ میں مذاکرات کے حوالے سے خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے، کیونکہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ ماسکو کے ساتھ معاہدے کے لیے بڑے فیصلے کر سکتے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے عندیہ دیا کہ وہ یوکرین میں امن مشن کے لیے فوج بھیجنے پر غور کر سکتے ہیں، جبکہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے یوکرین میں غیر جنگی علاقوں میں محدود فوجی تعیناتی کے امکان کا ذکر کیا ہے۔
دوسری جانب، جرمن چانسلر اولاف شولز نے ایسی کسی بھی بحث کو “غیر ضروری” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، جبکہ پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے یوکرین میں فوجی بھیجنے کے امکان کو رد کر دیا۔
فرانس بدھ کے روز مذاکرات کے دوسرے دور کی میزبانی کرے گا، کیونکہ گزشتہ یورپی سمٹ میں کوئی متفقہ حکمتِ عملی طے نہیں ہو سکی تھی۔