بلاول نے 26ویں آئینی ترمیم کو سیاسی مفاہمت قرار دے دیا

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں منظور کی گئی 26ویں آئینی ترمیم کو سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات اور مفاہمت کا نتیجہ قرار دیا۔

آکسفورڈ یونین کے صدر اسرار خان کو دیے گئے انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے اعتراف کیا کہ یہ ترمیم مکمل طور پر ان کی خواہش کے مطابق نہیں تھی، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پیپلز پارٹی نے اس قانون سازی میں اہم کردار ادا کیا اور اپنی عددی برتری پر انحصار کرنے کے بجائے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کو ترجیح دی۔

مکالمے کے دوران بلاول نے پاکستان میں جمہوریت کی صورتحال، پارلیمانی امور، 26ویں آئینی ترمیم اور 2025 کے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پییکا) ترمیمی بل سمیت مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ انہوں نے جمہوریت، آئینی حقوق اور انفرادی آزادیوں کے لیے پی پی پی کے پختہ عزم کا اعادہ کرتے ہوئے مثبت تنقید کو بہتری کا ذریعہ قرار دیا۔

پاکستان کے جمہوری نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے بلاول نے تسلیم کیا کہ ملک کا سیاسی ڈھانچہ ابھی ترقی کے مراحل میں ہے اور اسے پرانی جمہوریتوں جیسا استحکام حاصل نہیں، لیکن انہوں نے عالمی سطح پر پھیلتے ہوئے مسائل جیسے کہ غلط معلومات، عوامی مقبولیت پسندی اور روایتی سیاسی اصولوں کے زوال کو پاکستان کے لیے بھی ایک چیلنج قرار دیا۔

26ویں ترمیم کے حوالے سے انہوں نے وضاحت کی کہ یہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے دیرینہ مقصد، یعنی ایک آئینی عدالت کے قیام کی طرف ایک قدم ہے۔ اکتوبر میں منظور ہونے والی اس ترمیم کے ذریعے عدالتی اصلاحات متعارف کرائی گئیں، جن میں آئینی بینچز کی تشکیل شامل ہے۔ بلاول نے زور دیا کہ پیپلز پارٹی نے اپنی عددی اکثریت ہونے کے باوجود اپوزیشن، بشمول مولانا فضل الرحمان، سے مذاکرات کیے تاکہ وسیع تر اتفاق رائے حاصل کیا جا سکے۔

پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پییکا) میں ترامیم کا دفاع کرتے ہوئے بلاول نے تسلیم کیا کہ یہ قانون مکمل طور پر بے عیب نہیں، لیکن اصل مسودے کے مقابلے میں بہتر ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ابتدائی ورژن میں بعض سوشل میڈیا پوسٹس پر 30 سال تک کی قید جیسی سخت سزائیں شامل تھیں۔

جنوری میں منظور ہونے والے اس قانون، جسے صحافیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، میں غلط معلومات کے خلاف سخت سزائیں، نئی تعریفات، اور ریگولیٹری اداروں کی تشکیل شامل ہے۔ اس قانون کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (SMPRA)، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) اور سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبیونل کا قیام عمل میں آیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں متعارف کرائے گئے اس قانون کے پرانے ورژن پر تنقید کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اسے اپنی پارلیمانی طاقت کے اندر رہتے ہوئے سختی سے مسترد کیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پی پی پی قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت ہونے کے باوجود قانون سازی کو یکطرفہ طور پر کنٹرول نہیں کر سکتی، لیکن وہ پاکستان کے قانونی اور جمہوری ڈھانچے کی بہتری میں مؤثر کردار ادا کر رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں